منگل 7 ذیعقدہ 1435هـ - 2 ستمبر 2014م
سلیم صافی
امریکہ، کینیڈا اور اس کے دیگر اتحادیوں نے یہ منصوبہ آج سے تقریباً 5 سال قبل تیار کیا۔ جب انہوں نے دیکھا کہ عالم اسلام اور بالخصوص پاکستان اور افغانستان میں جہادی فکر کی قیادت دیوبندی اور سلفی مسلک ہی کے لوگ کر رہے ہیں اور القاعدہ یا طالبان کی صورت میں ان دونوں مسلکوں کے حاملین ایک صفحے پر آبھی گئے ہیں تو انہوں نے اس کے جواب میں دو مخالف مسلکوں کو متحرک کرنے ، ا ن کی سوچ کو فروغ دینے اور ان کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کرنے کا منصوبہ بنایا۔ اسی منصوبے کے تحت قادری صاحب کو دوبارہ میدان میں اتارنے کا منصوبہ بنایا گیا، اسی کے تحت انہیں پورے یورپ میں گھمایا گیا، پوپ جیسے لوگوں سے ان کی ملاقاتیں کرائی گئیں، ڈنمارک جیسے ممالک میں ان کے ساتھ ٹی وی مکالموں کا اہتمام کرایا گیا۔ اسی منصوبے کے تحت فتنہ خوارج جیسی کتاب لکھی گئی، وہ لاکھوں کی تعداد میں دو زبانوں میں چھاپ کر مفت تقسیم کی گئی (مجھے پانچ کاپیاں دی گئی تھیں) اور اسی لئے اس کی تقریب رونمائی نیو یارک میں ہوئی۔ پھر دو مغربی ممالک کی اینٹیلی جنس نے پاکستان میں سیاسی اور مذہبی رہنمائوں سے رابطے شروع کئے اور ان کو یہ بتایا جاتا رہا کہ وہ علامہ طاہرالقادری کی قیادت میں ایک موثر سیاسی قوت بنانا چاہتے ہیں کہ جو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) جیسی جماعتوں کی جگہ لے لے ۔ امریکہ، کینیڈا اور برطانیہ جیسے ممالک کی سرپرستی ہو تو پاکستان جیسے بدقسمت ملک میں اس پروجیکٹ کے لئے کارندے بہتات سے مل جاتے ہیں چنانچہ قادری صاحب کینیڈا میں رہے اور یہاں ایک سابق اخبار کے سابق ایڈیٹر ان کی طرف سے اہم شخصیات کے ساتھ رابطے کرتے رہے۔
ائیرفورس کے ایک سابق افسر جو اس وقت دفاعی تجزیہ نگار بن کر مختلف چینلز پر قادری صاحب کی وکالت کرتے رہتے ہیں بھی اس وقت قادری صاحب کی کشتی میں سوار ہو گئے لیکن ان کی آرزو کے پورے ہونے میں ایک رکاوٹ تو اس وقت پیدا ہوئی جب دونوں مسلکوں کی اہم شخصیات اور اہم تنظیموں نے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے کسی منصوبے کا حصہ بننے سے انکار کر دیا۔ دوسری غلطی یہ ہوئی کہ پاکستان میں قادری صاحب کے نمائندوں نے ایک سابق ڈی جی آئی ایس آئی (وقت آنے پر میں ان کا نام بھی بتادوں گا) سے رابطہ کیاچنانچہ پاکستان کی عسکری قیادت کو اس منصوبے کا علم ہو گیا۔ آصف علی زرداری صاحب کے دور میں ان کا وار کامیاب نہ ہو سکا تو اب قادری صاحب کو ایک نئے منصوبے کے تحت میدان میں اتارا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ دھرنوں کے لئے ابتدائی میٹنگ لندن میں ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ غلام مصطفیٰ کھر اور سردار آصف احمد علی جیسے لوگ بھی ان کے دائیں بائیں نظر آتے ہیں ۔ قادری صاحب کے اصل منصوبے کی کچھ خبر تحریک انصاف کی ترجمان شیرین مزاری کو بھی اس وقت ہو گئی تھی جب وہ تحریک انصاف میں نہیں آئی تھیں اور تھوڑی بہت انصاف پسند ہوا کرتی تھیں۔ میں انگریزی متن اس وجہ سے ساتھ نقل کر رہا ہوں تاکہ شیرین مزاری صاحبہ اور پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا کے ٹائیگرز یہ نہ کہیں کہ میں نے ترجمہ میں ڈنڈی ماری ہے۔ محترمہ شیرین مزاری نے آج سے ڈیڑھ سال قبل یعنی 14 جنوری 2013ء کو روزنامہ دی نیوز میں شیرین مزاری کا جو آرٹیکل شائع ہوا، اس میں وہ لکھتی ہیں کہ :At a third level, my misgivings are based on what I tend to call connecting the dots. The timing of Dr Qadri's return; information flowing out from British sources that the UK High Commissioner to Pakistan visited Dr Qadri in Canada two or three times about six months ago; the growing belligerency of drones and Indian troops along the LoC, alongside an unprecedented increase in terrorism, especially in Quetta; the sheer money and organizational structure that suddenly became overt just too many coincidences in terms of timeline. Some said the establishment was behind Dr Qadri, but I am not convinced on that count! However, external powers I suspect have a role, although I have no proof simply an educated assessment of what is happening within Pakistan and in our region.
We know the US seeks a favorable dispensation in Islamabad up to 2014 so that its withdrawal from Afghanistan can be smooth and the post-withdrawal scenario to its liking. A long-term friendly caretaker setup would suit them more than an elected government, especially since they are not sure what will happen in the next elections when there is no NRO and no guarantors! We also know how the UK played a lead role in the whole NRO game, so the same linkage can be taken as a given again. Banking on someone they recognize as a liberal religious leader, who has even sought to justify drones before December 23, they feel will allow them to bring the Pakistani nation on board. These are dangerous and false assumptions but it will not be the first time such miscalculations have been made.
ترجمہ : میرے خدشات کی بنیاد اس پر ہے جسے میں ــ، نقطے سے نقطہ ملانا کہتی ہوں ۔ طاہر القادری کی واپسی پر برطانوی ذرائع کے حوالے سے جو اطلاعات گردش میں ہیں ان کے مطابق چھ مہینے قبل پاکستان میں برطانیہ کے ہائی کمشنر نے ڈاکٹر طاہر القادری کے ساتھ کینیڈا میں دو یا تین مرتبہ ملاقات کی ۔ دوسری جانب دیکھا جائے تو ڈرون حملوں اور بھارت کی جانب سے کنٹرول لائن پر اشتعال انگیزی میں اضافہ ، کوئٹہ اور ملک کے دیگر حصوں میں دہشتگردی کے واقعات میں غیر معمولی اضافہ اور ایک انتہائی منظم مالی اور تنظیمی ڈھانچے کا اچانک منظر عام پر آ جانا جیسے بہت زیادہ اتفاقات ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ بعض لوگوں کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر طاہر القادری کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ تھا مگر میں اس سے اتفاق نہیں کرتا جبکہ میرے خیال میں اس میں بیرونی طاقتوں نے کردار ادا کیا اگرچہ میرے پاس اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے لیکن پاکستان اور اس خطے میں جو کچھ ہو رہا ہے اس پر ایک ماہرانہ رائے ضرور ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ امریکہ اسلام آباد میں 2014ء تک اپنے لئے موزوں سوچ کو رکھنا چاہتا ہے تاکہ افغانستان سے با آسانی انخلاء ہو سکے اور اس کے بعد کی صورتحال بھی اس کی پسند کے مطابق ترتیب پائے۔ جس کیلئے ایک منتخب حکومت کی بجائے دیر پا نگران سیٹ اپ ان کیلئے زیادہ موزوں رہے گا ۔ خاص طور پر وہ اس حوالے سے غیریقینی صورتحال کا شکار ہیں کہ جب ملک میں این آر او اور گارینٹر موجود نہیں ہوں گے تو آئندہ انتخابات میں کیا ہو گا۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ این آر او کے سارے کھیل میں برطانیہ نے کیا کردار ادا کیا ۔ اس لئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اسی رابطے کو دوبارہ بھی استعمال کیا جاسکتا ہے ۔ ایک ایسے مذہبی پیشوا پر بھروسہ جو 23 دسمبر سے قبل ڈرون حملوں کے جواز کا فتوی بھی جاری کر چکا ہو، کی وجہ یہ ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ایسا مذہبی رہنماء پاکستانی قوم کو آن بورڈ لانے میں کارآمد ثابت ہو گا۔ یہ غلط اور خطرناک مفروضات ہیں لیکن یہ بھی پہلی بار نہیں ہو رہا کہ ایسے غلط اندازے قائم کئے جا رہے ہیں۔
بہ شکریہ روزنامہ "جنگ
0 comments:
Post a Comment